انسان کی زندگی میں بعض اوقات ایسے مواقع آتے ہیں. کہ وہ جس مقصد کو مقصد حیات مانکر اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے. لیکن مقصد پورا نہیں ہوپاتا یے اور اسوقت انسان اپنے آپکو دنیا کا بدنصیب ترین انسان خیال کرتا ہے. لیکن رب کریم نے ایسے ہی مواقع کیلیے ارشاد فرمایا ہے " میری رحمت سے مایوس نہ ہونا"
میرے دوست جناب محترم غلام قادر صاحب جوکہ بلکل میرے بھائ کی طرح ہیں . انکی کہانی بھی بلکل اسی طرح ہی کی ہے. یہ کہانی
میں نے انکی ہی زبانی سنی. اور اس کہانی کو سنکر میرے دل کو تقویت ملی کہ واقعی اللہ کے دربار میں دیر ہے . مگر اندھیر نہیں ہے.
محترم غلام قادر کی کہانی اُنکی ہی زبانی سنیے.
وسیم بھائ یہ 1995 کی بات ہے کہ میرے دل میں عمرے کا خیال آیا. اس زمانے میں حج یہ عمرہ کے معاملات پرائیویٹ کمپنیوں یہ فرمز کے پاس نہیں تھے. بلکہ حاجی کیمپ ہی جانا پڑتا تھا. سو میں حاجی کیمپ ہی گیا. رمضان کے دن تھے. سو ایک جم غفیر عمرہ پر جانیوالے خوہشمند افراد کا وہاں لگا ہوا تھا. میرے ایک صاحب جوکہ رینجرز میں تھے. انکی معرفت چند ایک دن میں میرا کام ہوگیا . اور میرے عمرے پر جانے کی تاریخ آگئ. لیکن ٹکٹ محھے پی آئ اے والوں سے ہی ملنا تھا. اور جب میں ٹکٹ لینے پہنچا. تو انھوں نے جواب دیا. کہ اسوقت ہمارے پاس ٹکٹ نہیں ہیں .
میں چکر پر چکر وقتا فوقتا لگاتا رہا. ٹکٹ مجھے ملا نہیں. اور اتفاق دیکھئیے کہ میرے جانے کی تاریخ آگئ. اب میں بیحد پریشان تھا. کہ کیا کروں. مقررہ تاریخوں کے دن پر دن گزرنے شروع ہوئے. اور میں پریشان کیونکہ عمرہ کا ویزہ پندرہ دن پر مشتمل ہوتا ہے. مجھے ٹکٹ ملا نہیں تھا.
آخر کار ہوا یہ کہ جب میرے وآپس آنے میں صرف تین دن رہ گئے تھے. تب میرے ٹکٹ کا اجراء ہوا. میں نے اسی پر ہی صبر کرلیا. کہ چلو جو قسمت سہی.
لہازا میں سب عزیز رشتہداروں آس پڑوس والوں سے مل ملاکر احرام باندھے ائیرپورٹ پہنچا. اور جب ائیر پورٹ پہنچا تو میری قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا.
کیونکہ جب میں نے ائیرپورٹ حکام سے رابطہ کیا. تو یہ خبر مجھ پر بجلی بنکر گری کہ جس فلائٹ میں آپکو جانا ہے وہ پورے چوبیس گھنٹے لیٹ ہے.
میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں. میری حالت یہ تھی. کہ میں پاگل سا ہورہا تھا. جذبات کی شدت اس حد تک مجھ پر غالب آگئ. کہ میں ائیرپورٹ پر ہی چیخنے چلانے لگا.
میرے اسطرح چیخنے پر ایک رش میرے گرد لگ گیا. حتیٰ کہ ائیرپورٹ اہلکار بھی میرے پاس دوڑتے ہوئے آگئے. دریافت کیا کہ کیا ہوا.
میں نے رو رو کر انکو بتایا. کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوا ہے
ائیرپورٹ حکام نے میری بات سنی. لیکن انھوں نے صاف طور پر اپنی بے بسی ظاہر کردی. کیونکہ جب میں نے انکو کہا. کہ میں کل شام کو فلائٹ میں پرواز کرکے پرسوں وآپس آجاؤنگا.
یکن حکام نے دوٹوک لفظوں میں مجھکو سمجھایا. کہ چوبیس گھنٹوں میں تم عمرہ کے مناسک ادا نییں کرسکو گے. اور یاد رکھو. کہ اگر تم نے معیاد سے زیادہ وہاں رکنے کی کوشش کی تو سعودی حکام تمکو جیل میں ڈال دینگے. وہ تمہاری ایک نہیں سنیں گے.
اور اتنا کہکر وہ چلے گئے. اور میں وہیں روتا رہ گیا.
بہرحال جب میں گھر وآپس پہنچا. تو اریب قریب کے تمام افراد حیران تھے. میری کہانی سنکر علاوہ افسوس کے وہ کچھ نہیں کرسکتے تھے. سو میرے پاس بھی صبر کے علاوہ کوئ چارہ نہ تھا.
دن گزرتے ریے......اور گزرتے رہے. اور ایک دن ایک اخبار میں میں نے مشین مین کی نوکری کا ایک اشتہار دیکھا. جوکہ دبئی کیلیے تھا. اور یہ نوکری میرے پیشے کے اعتبار سے میرے لیے عین مطابق تھی. چناچہ میں اگلے ہی دن مزکورہ صاحب کے پاس ملنے چلا گیا. جنھوں نے اشتہار دیا تھا.
میں نے ان صاحب کو اپنے متعلق بتایا. اور اپنے کام کی تفصیل سے بھی انکو پوری طرح آگاہ کردیا. مزکورہ صاحب مجھ سے ملکر ویسے تو مطمئن ہوئے. تاہم انھوں نے فرمائش کی . کہ اگر میں آپسے ملنے کے بہانے آپکی فیکٹری میں آؤں تو کوئ حرج تو نہیں ہے؟
میں نے فورا ہی بخوشی حامی بھرلی. دوسرے ہی دن یہ صاحب میر پاس موجود تھے. انھوں نے مجھے اپنی آنکھوں سے کام کرتے ہوئے دیکھا. اور پوری طرح مطمئن ہوگئے. انھوں نے دبئی میں کمپنی سے رابطہ کیا. اور مطلع کیا. کہ آپکے کام کے معیار کے مطابق آدمی مل گیا ہے. میں پوری طرح مطمئن ہوں.
اور پھر تقریبا ایک ہفتے بعد ہی ان صاحب نے مجھکو اپنے پاس بلایا. اور بتایا . کہ مبارک ہو تمہارا ویزہ آنیوالا ہے. پندرہ دن میں تمکو دبئی چلے جانا ہوگا.
میں خوش و خرم انکے آفس سے باہر نکلا. میرا ایک دوست میرے ساتھ ہی آیا تھا. ہم باہر نکلے. تو سڑک کے دوسری طرف ہوٹل تھا. میرے دوست نے مجھ سے کہا. قادر آؤ چائے پیتے ہیں. اور ہم دونوں ہوٹل میں چائے پینے پہنچ گئے.
یا اللہ کی قدرت ہے. کہ ہم دونوں جس ٹیبل پر چائے پینے بیٹھے. اسی ٹیبل پر کوئ صاحب اپنا اخبار چھوڑ کر چلے گئے تھے.
اور میں نے بے خیالی میں ہی اخبار کھولا اور اسکو دیکھنا شروع کردیا
. اور اندر کے صفحہ میں ایک اشتہار "ضرورت برائے سعودی عرب" پر میری نگاہ جم گئ.
یہ اشتہار سعودی عرب کی کمپنی کی طرف سے مشین مین کی آسامی کیلیے دیا گیا تھا. میں نے فوراً ہی دوست کو وہ اشتہار دکھایا. اس نے دیکھا. اور بولا کیا بات ہے یار یہ تو بلکل تمہارے کام کے عین مطابق ہے. کیا موڈ ہے اس بندے کے پاس چلنے کا؟
میں کوئ ڈھنگ کا جواب نہ دے سکا. دبئی جانے کا ویسے ہی بندوبست ہوچکا تھا. دوست نے کہا. ٹرائ کرکے دیکھنے میں کیا حرج ہے اگر یہاں نہ ہوا تو دبئی تو تم نے جانا پر جانا ہی ہے.
دوست کے اتنی ہمت دلانے پر ہم دونوں ایجنٹ سے ملنے اسکے آفس چلے گئے. ایجنٹ سے ملے. اسکو اپنے کام کے متعلق آگاہ کیا. اس نے دوسرے دن میری فیکٹری میں آنے کا کہا.
دوسرے دن ایجنٹ میری فیکٹری میں موجود تھا. اس نے میرے پیشہ ورانہ کاغذات اور میرے کام کو اپنے سامنے اچھی طرح دیکھا. اور مطمئن ہوگیا. اسنے کمپنی سے رابطہ کیا. کہ مطلوبہ شخص مل گیا ہے. اور میں ہر طرح مطمئن ہوں. اور جلد جواب دے دیا جائے. تاکہ معاملہ ایک طرف ہوجائے. کیونکہ مطلوبہ شخص کے پاس دبئی جانے کا آپشن بھی موجود ہے.
میری قسمت زوروں پر تھی. کمپنی کی طرف سے فورا ہی رضامندی کا جواب آگیا. ایجنٹ نے مجھے بلوایا اور مجھکو یہ خوشخبری سنائ. کہ تم سعودی عرب جانے کیلیے منتخب کرلیے گئے ہو. بمشکل پندرہ سے بیس دن میں تمکو جانا ہوگا
ور پھر تقریبا بیس دن بعد ہی کمپنی کی طرف سے میرا روانگی کا ٹکٹ آگیا. اور یوں وہ سرزمین مقدس کہ جہاں جانے کیلیے میں نے سرتوڑ کوششیں کی تھیں. اور میں کامیاب نہیں ہوپایا تھا . اور آج کتنی آرام سے بناء کسی محنت کے وہاں جانے کیلیے میرا روانہ ہونا مقدر ہوچکا تھا.
اور یوں میں جدہ کیلیے روانہ ہوا. اور جب میں جدہ ائیرپورٹ پر آیا. تو میری حالت ہی عجیب ہوچکی تھی. جہاز نے ائیرپورٹ پر لینڈ کیا. اور جب جہاز کا دروازہ کھولا گیا. میں باہر آیا. اپنے اطراف میں دیکھا. اور اچانک ہی فرط جذبات سے میری حالت غیر ہونے لگی. جسے میرے اطراف کے نیچے جانے والے مسافروں نے محسوس کرلیا
مجھے کچھ افراد نے سہارا دیکر نیچے اتارا. اور جیسے ہی میرے قدم زمین پر پڑے. مجھ پر شدید قسم کی رقت طاری ہوگئ. اور میں زار و قطار روتے روتے فورا ہی سجدے میں گرگیا.
کمپنی کی طرف سے مجھے ریسیو کرنے کیلیے چار عربی افراد آئے ہوئے تھے. انھوں نے فورا ہی آنکر مجھکو اٹھایا. دریافت کیا کہ کیا معاملہ ہے. ؟
میں بچوں کی طرح بلک بلک کر انکو بتارہا تھا. کہ کس طرح میں یہاں عمرہ کی نیت سے یہاں آنے کی کوشش کررہا تھا. لیکن اسوقت ناکام رہا تھا. اور آج میری قسمت مجھے کس قدر حیران کن طور پر یہاں لے آئ ہے. یہ چاروں حضرات میری کہانی سنکر بہت متاثر ہوئے.
کمپنی پہنچا مینیجنگ ڈائیریکٹر نے خود آنکر میرا استقبال کیا. مجھے ساتھ لانے والے چاروں حضرات نے انکو ائیر پورٹ کا سارا قصہ سنایا. ڈائیریکٹر صاحب نے یہ سب سنا. مجھ سے بولے غلام قادر کام ہوتا رہیگا. پہلے عمرہ کرو.
مجھے یقین نہیں آرہا تھا. لیکن یہی حقیقت تھی. مجھکو ایک ہفتہ دیا گیا. جتنا دل کرے عمرے کرو. میں نے اللہ کا شکر ادا کیا. عمرے کے بعد میں نے کام کو جوائن کرلیا. ڈائیریکٹر صاحب میرے کام سے خوش بھی تھے. اور جب حج کا موقعہ آیا. تو حکم دیا. کہ حج بھی کرو. اور یوں بفضل خدا میں نے حج بھی کیا.
میں پندرہ سال سعودی عرب میں رہا. ایک وقت وہ بھی تھا کہ ایک عمرہ کرنے میں میں ناکام تھا. لیکن ....ان پندرہ سالوں میں کوئ ہفتہ میرا ایسا نہ گیا. کہ جب میں عمرہ کیلیے نہ مکہ نہ آتا تھا. ہر سال کا حج .
میں نے اتنے عمرے کیے. کہ میری روح تک حج و عمرہ میں نہاگئ. اس سرزمین مقدس پر اتنا عرصہ گزارنے کی وجہ سے عربی پر عبور حاصل ہوا. مکہ مدینہ کا چپہ چپہ دیکھا
غرض یہ کہ میرے رب نے مجھ پر میری اوقات سے بڑھکر اتنی بڑی کرم نوازی کی کہ میں اپنے آپکو اس کا اہل نہیں پاتا.
میں جب عمرہ پر جانے میں ناکام رہا تھا. اپنے آپکو ایک بدنصیب شخص سمجھ رہا تھا. لیکن مجھے یہ احساس ہی نہیں تھا. کہ اللہ تعالی نے میرے لیے کتنا بڑا انعام رکھا یے. کتنی بڑی کرم نوازی وہ میرے ساتھ کریگا. میرا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا. لیکن کچھ گھریلو پیچیدگیوں کی وجہ سے مجھے پاکستان مستقل طور پر آنا پڑا. لیکن آج بھی اس سرزمین مقدس پر جو پندرہ سال میں نے گزارے. انکو اللہ تعالی کا ایک ایسا انعام خیال کرتا ہوں. کہ میرے رب کا مجھ پر اتنا بڑا کرم ہے. کہ میرے پاس اپنی خوش نصیبی کو جانچنے کیلیے کوئ پیمانہ ہی نہیں ہے. "
قرآن پاک میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ
"اللہ کی رحمت سے مایوس صرف کافر ہی ہوا کرتے ہیں"
وہ کرم نواز ہے. جناب محترم غلام قادر صاحب اس وقت برنس روڈ گلی نمبر ایک میں ایک دوکان چلارہے ہیں. اللہ تعالی یر انسان کو اپنی زات پاک پر یقین کامل نصیب فرمائے..........آمین.
میرے دوست جناب محترم غلام قادر صاحب جوکہ بلکل میرے بھائ کی طرح ہیں . انکی کہانی بھی بلکل اسی طرح ہی کی ہے. یہ کہانی
میں نے انکی ہی زبانی سنی. اور اس کہانی کو سنکر میرے دل کو تقویت ملی کہ واقعی اللہ کے دربار میں دیر ہے . مگر اندھیر نہیں ہے.
محترم غلام قادر کی کہانی اُنکی ہی زبانی سنیے.
وسیم بھائ یہ 1995 کی بات ہے کہ میرے دل میں عمرے کا خیال آیا. اس زمانے میں حج یہ عمرہ کے معاملات پرائیویٹ کمپنیوں یہ فرمز کے پاس نہیں تھے. بلکہ حاجی کیمپ ہی جانا پڑتا تھا. سو میں حاجی کیمپ ہی گیا. رمضان کے دن تھے. سو ایک جم غفیر عمرہ پر جانیوالے خوہشمند افراد کا وہاں لگا ہوا تھا. میرے ایک صاحب جوکہ رینجرز میں تھے. انکی معرفت چند ایک دن میں میرا کام ہوگیا . اور میرے عمرے پر جانے کی تاریخ آگئ. لیکن ٹکٹ محھے پی آئ اے والوں سے ہی ملنا تھا. اور جب میں ٹکٹ لینے پہنچا. تو انھوں نے جواب دیا. کہ اسوقت ہمارے پاس ٹکٹ نہیں ہیں .
میں چکر پر چکر وقتا فوقتا لگاتا رہا. ٹکٹ مجھے ملا نہیں. اور اتفاق دیکھئیے کہ میرے جانے کی تاریخ آگئ. اب میں بیحد پریشان تھا. کہ کیا کروں. مقررہ تاریخوں کے دن پر دن گزرنے شروع ہوئے. اور میں پریشان کیونکہ عمرہ کا ویزہ پندرہ دن پر مشتمل ہوتا ہے. مجھے ٹکٹ ملا نہیں تھا.
آخر کار ہوا یہ کہ جب میرے وآپس آنے میں صرف تین دن رہ گئے تھے. تب میرے ٹکٹ کا اجراء ہوا. میں نے اسی پر ہی صبر کرلیا. کہ چلو جو قسمت سہی.
لہازا میں سب عزیز رشتہداروں آس پڑوس والوں سے مل ملاکر احرام باندھے ائیرپورٹ پہنچا. اور جب ائیر پورٹ پہنچا تو میری قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا.
کیونکہ جب میں نے ائیرپورٹ حکام سے رابطہ کیا. تو یہ خبر مجھ پر بجلی بنکر گری کہ جس فلائٹ میں آپکو جانا ہے وہ پورے چوبیس گھنٹے لیٹ ہے.
میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں. میری حالت یہ تھی. کہ میں پاگل سا ہورہا تھا. جذبات کی شدت اس حد تک مجھ پر غالب آگئ. کہ میں ائیرپورٹ پر ہی چیخنے چلانے لگا.
میرے اسطرح چیخنے پر ایک رش میرے گرد لگ گیا. حتیٰ کہ ائیرپورٹ اہلکار بھی میرے پاس دوڑتے ہوئے آگئے. دریافت کیا کہ کیا ہوا.
میں نے رو رو کر انکو بتایا. کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوا ہے
ائیرپورٹ حکام نے میری بات سنی. لیکن انھوں نے صاف طور پر اپنی بے بسی ظاہر کردی. کیونکہ جب میں نے انکو کہا. کہ میں کل شام کو فلائٹ میں پرواز کرکے پرسوں وآپس آجاؤنگا.
یکن حکام نے دوٹوک لفظوں میں مجھکو سمجھایا. کہ چوبیس گھنٹوں میں تم عمرہ کے مناسک ادا نییں کرسکو گے. اور یاد رکھو. کہ اگر تم نے معیاد سے زیادہ وہاں رکنے کی کوشش کی تو سعودی حکام تمکو جیل میں ڈال دینگے. وہ تمہاری ایک نہیں سنیں گے.
اور اتنا کہکر وہ چلے گئے. اور میں وہیں روتا رہ گیا.
بہرحال جب میں گھر وآپس پہنچا. تو اریب قریب کے تمام افراد حیران تھے. میری کہانی سنکر علاوہ افسوس کے وہ کچھ نہیں کرسکتے تھے. سو میرے پاس بھی صبر کے علاوہ کوئ چارہ نہ تھا.
دن گزرتے ریے......اور گزرتے رہے. اور ایک دن ایک اخبار میں میں نے مشین مین کی نوکری کا ایک اشتہار دیکھا. جوکہ دبئی کیلیے تھا. اور یہ نوکری میرے پیشے کے اعتبار سے میرے لیے عین مطابق تھی. چناچہ میں اگلے ہی دن مزکورہ صاحب کے پاس ملنے چلا گیا. جنھوں نے اشتہار دیا تھا.
میں نے ان صاحب کو اپنے متعلق بتایا. اور اپنے کام کی تفصیل سے بھی انکو پوری طرح آگاہ کردیا. مزکورہ صاحب مجھ سے ملکر ویسے تو مطمئن ہوئے. تاہم انھوں نے فرمائش کی . کہ اگر میں آپسے ملنے کے بہانے آپکی فیکٹری میں آؤں تو کوئ حرج تو نہیں ہے؟
میں نے فورا ہی بخوشی حامی بھرلی. دوسرے ہی دن یہ صاحب میر پاس موجود تھے. انھوں نے مجھے اپنی آنکھوں سے کام کرتے ہوئے دیکھا. اور پوری طرح مطمئن ہوگئے. انھوں نے دبئی میں کمپنی سے رابطہ کیا. اور مطلع کیا. کہ آپکے کام کے معیار کے مطابق آدمی مل گیا ہے. میں پوری طرح مطمئن ہوں.
اور پھر تقریبا ایک ہفتے بعد ہی ان صاحب نے مجھکو اپنے پاس بلایا. اور بتایا . کہ مبارک ہو تمہارا ویزہ آنیوالا ہے. پندرہ دن میں تمکو دبئی چلے جانا ہوگا.
میں خوش و خرم انکے آفس سے باہر نکلا. میرا ایک دوست میرے ساتھ ہی آیا تھا. ہم باہر نکلے. تو سڑک کے دوسری طرف ہوٹل تھا. میرے دوست نے مجھ سے کہا. قادر آؤ چائے پیتے ہیں. اور ہم دونوں ہوٹل میں چائے پینے پہنچ گئے.
یا اللہ کی قدرت ہے. کہ ہم دونوں جس ٹیبل پر چائے پینے بیٹھے. اسی ٹیبل پر کوئ صاحب اپنا اخبار چھوڑ کر چلے گئے تھے.
اور میں نے بے خیالی میں ہی اخبار کھولا اور اسکو دیکھنا شروع کردیا
. اور اندر کے صفحہ میں ایک اشتہار "ضرورت برائے سعودی عرب" پر میری نگاہ جم گئ.
یہ اشتہار سعودی عرب کی کمپنی کی طرف سے مشین مین کی آسامی کیلیے دیا گیا تھا. میں نے فوراً ہی دوست کو وہ اشتہار دکھایا. اس نے دیکھا. اور بولا کیا بات ہے یار یہ تو بلکل تمہارے کام کے عین مطابق ہے. کیا موڈ ہے اس بندے کے پاس چلنے کا؟
میں کوئ ڈھنگ کا جواب نہ دے سکا. دبئی جانے کا ویسے ہی بندوبست ہوچکا تھا. دوست نے کہا. ٹرائ کرکے دیکھنے میں کیا حرج ہے اگر یہاں نہ ہوا تو دبئی تو تم نے جانا پر جانا ہی ہے.
دوست کے اتنی ہمت دلانے پر ہم دونوں ایجنٹ سے ملنے اسکے آفس چلے گئے. ایجنٹ سے ملے. اسکو اپنے کام کے متعلق آگاہ کیا. اس نے دوسرے دن میری فیکٹری میں آنے کا کہا.
دوسرے دن ایجنٹ میری فیکٹری میں موجود تھا. اس نے میرے پیشہ ورانہ کاغذات اور میرے کام کو اپنے سامنے اچھی طرح دیکھا. اور مطمئن ہوگیا. اسنے کمپنی سے رابطہ کیا. کہ مطلوبہ شخص مل گیا ہے. اور میں ہر طرح مطمئن ہوں. اور جلد جواب دے دیا جائے. تاکہ معاملہ ایک طرف ہوجائے. کیونکہ مطلوبہ شخص کے پاس دبئی جانے کا آپشن بھی موجود ہے.
میری قسمت زوروں پر تھی. کمپنی کی طرف سے فورا ہی رضامندی کا جواب آگیا. ایجنٹ نے مجھے بلوایا اور مجھکو یہ خوشخبری سنائ. کہ تم سعودی عرب جانے کیلیے منتخب کرلیے گئے ہو. بمشکل پندرہ سے بیس دن میں تمکو جانا ہوگا
ور پھر تقریبا بیس دن بعد ہی کمپنی کی طرف سے میرا روانگی کا ٹکٹ آگیا. اور یوں وہ سرزمین مقدس کہ جہاں جانے کیلیے میں نے سرتوڑ کوششیں کی تھیں. اور میں کامیاب نہیں ہوپایا تھا . اور آج کتنی آرام سے بناء کسی محنت کے وہاں جانے کیلیے میرا روانہ ہونا مقدر ہوچکا تھا.
اور یوں میں جدہ کیلیے روانہ ہوا. اور جب میں جدہ ائیرپورٹ پر آیا. تو میری حالت ہی عجیب ہوچکی تھی. جہاز نے ائیرپورٹ پر لینڈ کیا. اور جب جہاز کا دروازہ کھولا گیا. میں باہر آیا. اپنے اطراف میں دیکھا. اور اچانک ہی فرط جذبات سے میری حالت غیر ہونے لگی. جسے میرے اطراف کے نیچے جانے والے مسافروں نے محسوس کرلیا
مجھے کچھ افراد نے سہارا دیکر نیچے اتارا. اور جیسے ہی میرے قدم زمین پر پڑے. مجھ پر شدید قسم کی رقت طاری ہوگئ. اور میں زار و قطار روتے روتے فورا ہی سجدے میں گرگیا.
کمپنی کی طرف سے مجھے ریسیو کرنے کیلیے چار عربی افراد آئے ہوئے تھے. انھوں نے فورا ہی آنکر مجھکو اٹھایا. دریافت کیا کہ کیا معاملہ ہے. ؟
میں بچوں کی طرح بلک بلک کر انکو بتارہا تھا. کہ کس طرح میں یہاں عمرہ کی نیت سے یہاں آنے کی کوشش کررہا تھا. لیکن اسوقت ناکام رہا تھا. اور آج میری قسمت مجھے کس قدر حیران کن طور پر یہاں لے آئ ہے. یہ چاروں حضرات میری کہانی سنکر بہت متاثر ہوئے.
کمپنی پہنچا مینیجنگ ڈائیریکٹر نے خود آنکر میرا استقبال کیا. مجھے ساتھ لانے والے چاروں حضرات نے انکو ائیر پورٹ کا سارا قصہ سنایا. ڈائیریکٹر صاحب نے یہ سب سنا. مجھ سے بولے غلام قادر کام ہوتا رہیگا. پہلے عمرہ کرو.
مجھے یقین نہیں آرہا تھا. لیکن یہی حقیقت تھی. مجھکو ایک ہفتہ دیا گیا. جتنا دل کرے عمرے کرو. میں نے اللہ کا شکر ادا کیا. عمرے کے بعد میں نے کام کو جوائن کرلیا. ڈائیریکٹر صاحب میرے کام سے خوش بھی تھے. اور جب حج کا موقعہ آیا. تو حکم دیا. کہ حج بھی کرو. اور یوں بفضل خدا میں نے حج بھی کیا.
میں پندرہ سال سعودی عرب میں رہا. ایک وقت وہ بھی تھا کہ ایک عمرہ کرنے میں میں ناکام تھا. لیکن ....ان پندرہ سالوں میں کوئ ہفتہ میرا ایسا نہ گیا. کہ جب میں عمرہ کیلیے نہ مکہ نہ آتا تھا. ہر سال کا حج .
میں نے اتنے عمرے کیے. کہ میری روح تک حج و عمرہ میں نہاگئ. اس سرزمین مقدس پر اتنا عرصہ گزارنے کی وجہ سے عربی پر عبور حاصل ہوا. مکہ مدینہ کا چپہ چپہ دیکھا
غرض یہ کہ میرے رب نے مجھ پر میری اوقات سے بڑھکر اتنی بڑی کرم نوازی کی کہ میں اپنے آپکو اس کا اہل نہیں پاتا.
میں جب عمرہ پر جانے میں ناکام رہا تھا. اپنے آپکو ایک بدنصیب شخص سمجھ رہا تھا. لیکن مجھے یہ احساس ہی نہیں تھا. کہ اللہ تعالی نے میرے لیے کتنا بڑا انعام رکھا یے. کتنی بڑی کرم نوازی وہ میرے ساتھ کریگا. میرا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا. لیکن کچھ گھریلو پیچیدگیوں کی وجہ سے مجھے پاکستان مستقل طور پر آنا پڑا. لیکن آج بھی اس سرزمین مقدس پر جو پندرہ سال میں نے گزارے. انکو اللہ تعالی کا ایک ایسا انعام خیال کرتا ہوں. کہ میرے رب کا مجھ پر اتنا بڑا کرم ہے. کہ میرے پاس اپنی خوش نصیبی کو جانچنے کیلیے کوئ پیمانہ ہی نہیں ہے. "
قرآن پاک میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ
"اللہ کی رحمت سے مایوس صرف کافر ہی ہوا کرتے ہیں"
وہ کرم نواز ہے. جناب محترم غلام قادر صاحب اس وقت برنس روڈ گلی نمبر ایک میں ایک دوکان چلارہے ہیں. اللہ تعالی یر انسان کو اپنی زات پاک پر یقین کامل نصیب فرمائے..........آمین.
Comments
Post a Comment